Mchoudhary

Add To collaction

تحمّل عشق بقلم ملیحہ چودھری

قسط9

____________

نیوز پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی .. وہ بار بار چینل بدل رہا تھا جب اُسکے ہاتھ ایک نیوز پر روک گئے تھے اور جو دیکھا جو سنا وہ ایک دم کھڑا ہوا تھا گاڑی کی چابی اٹھائی اور حواس باختہ سا باہر کو بھاگا آدھا گھنٹے کا سفر پندرہ منٹ ۔عین طے کیا گیا تھا..... 

وہ احمد حویلی کے سامنے رُکا جو کبھی خوبصورتی سے چار چاند لگایا کرتی تھی آج وہیں جگہ قبرستان بن کر رہ گئی تھی.......

اُسنے چاروں جانب اپنی ناظرین دوڑائی جہاں ہے طرف پولیس اور میڈیا کے لوگ تھے پولیس اپنا کام کر رہی تھی جبکہ میڈیا لوگوں کو اسکے متعلق انفورم کر رہی تھی ......

وہ شکستہ سے قدم اٹھاتا آگے کو بڑھا تھا ہے طرف لاش ہی لاش پڑی تھی.. جنکو دیکھتا وہ آگے بڑھ رہا تھا.......

وہ اسپیکٹر اکرم سے ملا جسکے انڈر یہ علاقہ آتا تھا..اکرم اُسکا بہت اچھا دوست تھا اور اُسکا کزن بھی تھا.....

"اکرم... !! اُسنے پیچھے سے اسکو پُکارا اکرم نے پلٹ کر دیکھا تھا...... اوہ غازی تُم یہاں اکرم نے جب غازی کو اپنے سامنے دیکھا ٹیوب خوشگوار لحظے میں بولا اور ساتھ ہی ساتھ اُسکے گلے بھی جا لگا تھا ....

"یہاں کیسے آنا ہوا ؟ اکرم نے پوچھا تھا غازی نے اُسکا ہلکا پھلکا جواب دیا اور خاموش ہو گیا.....

"کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نا ؟ بہت پریشان دکھ رہے ہو ؟ اکرم نے اُسکے چہرے سے عیاں ہونے والی پریشانی کو جانچتے ہوئے اُس سے پوچھا......

"ہممم وہ گردن ہلا کر خاموش ہو گیا..... اور ہر جانب نظریں دوڑانے لگا تھا.... 

کچھ لمبی خاموشی کے بعد اُسنے آخر پوچھ ہی لیا تھا.. "یہاں کیا ہوا ہے ؟ اکرم نے اُسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے جواب دیا ....

"پتہ نہیں یار ابھی تک صرف اتنا پتہ ہے کہ یہاں موسم کی وجہ سے ہوا ہے اور باقی رپورٹ کے آنے کے بعد پتہ چلے گا ......

اکرم نے بولتے ہوئے کندھے اُچکائے تھے.... سب ہی مر گئے ہوگے یہاں تو ؟ جو سوال اُسکے دل اور دماغ پر ایک ڈر لیے بیٹھا تھا آخر اُسنے کر ہی ڈالا ....

" نہیں اتنے لوگوں میں صرف دو لوگ زندہ بچے ہے... اکرم نے اسکو بتایا تھا..... اور اُسکا دل ڈوب کر اُبھرا تھا ایک نئے سرے سے ایک روشنی سی اسکو نظر آئی تھی ....

" ک کون ہے وہ دو شخص ؟ وہ نے بسی نظروں سے اکرم۔سے پوچھ رہا تھا جبکہ ڈر کنڈلی مارے دل اور دی۔آگ پر بیٹھا تھا........

"ایک تو سیٹھ کمرالدین کا بیٹا احمد جیسکا سارا چہرا جھلس گیا ہے جبکہ دوسری ایک لڑکی ہے"... اکرم نے اُسکی بتایا.........

"کہاں ہے وہ دونوں ؟ اُسنے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا.. اکرم نے ہاتھ کے اشارے سے اسکو بتایا اور وہاں سے ہٹ گیا تھا جبکہ اُسنے اکرم کی بتے ہوئی جگہ کے جناب اپنے قدم بڑھا دیے تھے........

وہ جب وہاں گیا تھا تو اسکو پتہ چلا جو لڑکا بچا ہے اسکو ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے ٹریٹمنٹ میں لیے اور لڑکی کو ہلکی پھلکی چوٹ آی ہے تو اسکو انجکشن دے کر سلا دیا گیا ہے .. یہ سب اسکو ایک نرس نے بتایا تھا......

"سسٹر کہاں ہے وہ لڑکی ؟ اُسنے بے صبری سے پوچھا تھا اور لڑکی نے اپنے پیچھے آنے کا بول کر اپنے قدم ایک گھر کی طرف بڑھا دیے تھے جو حویلی کے کچھ فاصلے پر بنا ہوا تھا........

وہ نرس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا اس پاس کے منظر پر بھی نظر مار رہا تھا نرس ایک گھر کر سامنے رُک کر دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھوڑی ڈر بعد دروازہ کھول دیا گیا اور وہ نرس کے پیچھے ہی اندر آ گیا تھا ....

"امّاں وہ لڑکی کون سے روم میں ہے ؟ نرس نے دروازہ کھولنے والی ضعیف عورت سے پوچھا جو چہرے سے بہت شفیق سی لگ رہی تھی.......

وہ عورت اُن دونوں کو لیے ایک کمرے میں گھسی تھی نرس نے اُس لڑکی کا تھوڑا جائزہ لیا اور باہر چلی گئی جبکہ اُسکے پیچھے پیچھے ہی وہ عورت بھی نکل گئی تھی......

وہ لڑکی دوسری طرف چہرا کیے دوائیوں کے زیر اثر سو رہی تھی اُسنے دوسری طرف جدھر اُسکا چہرا تھا اُس طرف ہی آ گیا تھا دل اپنے لے پر زور شور سے دھڑک رہا تھا جبکہ محبوب کو دیکھنے کی چاہ میں آنکھیں چمک رہی تھی......

وہ جیسے ہی دوسری طرف ایا اور اُسکے چہرے کو دیکھا تو ایک دم اُسکی زبان سے الحمدللہ نکلا تھا اور دو آنسوں اللہ کے شکر میں نکل کر زمین بوس ہو تھے....

پاس پڑا سٹول کھینچ کے اُسنے بیڈ کے پاس کیا اور اُسکا ہاتھ تھامیں بیٹھ گیا تھا.... کئی لمحہ اسکو دیکھتے اپنی بڑھتی محبّت کی پیاس کو بجھاتا رہا تھا.......
اور پھر کھڑا ہو کے جلدی سے باہر کی طرف بڑھ گیا تھا......

..............................💖💖💖💖💖

وہ اکرم سے اجازت لیتے ہوئے اسکو اپنے فلیٹ پر لے آیا تھا.. اسکو یہاں آئے ایک مہینہ ہو گیا تھا اس بیچ غازی فلیٹ اور اُسکے اٹھنے سے پہلے اتا اور اُسکے اٹھنے سے پہلے ہی چلا جاتا .. اُسنے فیری ٹیل کے لیے ایک ملازمہ مستقل کے لئے رکھ لی تھی جو اُسکا خاص خیال رکھتی ... 

وہ سو رہی تھی سردیوں کا آغاز تھا ہلکی ہلکی خوشگوار سی ٹھنڈ بہت لطف بخش رہی تھی وہ کمبل سر تا پا اوڑھے خواب خرگوش تھی صبح کے دس بج رہے تھے .. جب اُسکی کسی احساس کے تحت آنکھ کھلی اُسنے پہلے ایک آنکھ کھول کر کھڑکی کی طرف دیکھا جہاں سے چمکدار خوش کن دھوپ اُسکے چہرے کو چھو رہی تھی ایک دم آنکھ کھولنے سے اُسکی آنکھیں چندھیا گئی تھی....

پھر نظر پھیرتے پھیرتے اُسکی نظر سامنے بیٹھے شخص پر ٹھہر سی گئی اُسکے لیے یہ ایک خواب سا تھا.......

کئی لمحہ تک دیکھتی رہی ہر چیز سے بیگانہ ہو کر پھر ایک دم ہی اُسنے اَپنی آنکھیں موند لیں کہ کہیں یہ کوئی خواب تو نہیں دیکھ ری اُسنے آنکھیں موند کر پھر سے کھول کے سامنے بیٹھے وجود پر نظریں ڈالی اور ایک دم جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی.....

اُسکے یوں ایک دم اٹھنے سے لمبے گھنے بالوں کا جڑا کھل کر اُسکے شانوں پر کالی گھٹا کی طرح پھیل گئے تھے چھوٹی چھوٹی آوارہ لٹے چہرے پر آ کر جھول گئی تھی جبکہ اُسنے اپنے عنابی لبوں کو دانتوں تلے دبا لیے تھے.......

"آپ ؟ وہ بول کر اپنی نظریں جھکائے انگلیوں کو چیخانے لگی تھی.....

"جی میں !! وہ کھڑا ہوتا اُسکے پاس آیا تھا.....
"کیسی ہو؟ پاس پڑے سٹول پر بیٹھتے ہوئے پوچھا جبکہ نظریں اُسکے ہر انداز کا طواف کر رہی تھی....

"جی ٹھیک ! جواب ملا..... 

Will you marry me?

کیا تم مجھ سے شادی کروگی غازی نے اُسکا ہاتھ تھامتے آہستہ سے اپنی آہنی گرفت میں دباتے ہوئے بہت ہی محبّت پاش نظروں سے دیکھتے پوچھا تھا...

محبّت کے دیپ آنکھوں میں لیے یہ شخص اسکو بہت عزیز تھا اپنی جان سے بھی پیارا ... اُسنے اپنی جھالر نما پلکوں کو اٹھا کر غازی کی طرف دیکھا جہاں محبّت کا ایک جہاں آباد تھا.....

اور ساتھ کہ ساتھ ہی نظریں جھکا کر گردن ہاں میں ہلا دی گئی تھی......

"ہاں !!! 

اور یہ تھا دونوں کی زندگی میں خوشی کا پہلا پل نا کوئی شکوہ کیا گیا تھا نا کسی کو منایا گیا تھا...

جو پل آپکو خوشی دیتے ہو اسکو قبول کرنے میں کبھی دیری نہیں کرنی چاہئے کیونکہ پل بدلتے دیر نہیں لگتی ، کب کیا ہو جائے کسی کو کچھ نہیں پتہ ؟ 

................................💕💕💖

فردوس جب دلہن بن کر احمد حویلی آی تھی تو ساری رسم رواج کے بعد اسکو احمد کے کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا..

اِدھر احمد اپنے دوستوں میں وقت گزارنے کے بعد وہ اپنے روم میں جانے لگا جب ایک ملازم دوڑتا ہوا آیا تھا....

"صاحب جی صاحب جی آپکو بڑے صاحب بلا رہے ہیں "...ملازم نے پیغام دیا تھا احمد کو ..

"بابا سائے نے مجھے یاد فرمایا وہ خود سے مخاطب ہوا تھا اور فائر ملازم کو جانے کا بول کر وہ کمرالدین صاحب کے خوابگاہ کی طرف چل دیا تھا...

اُسنے دروازہ نوک کیا تھا اندر سے اجازت لینے کے بعد وہ اب اپنے بابا سائے کے سامنے صوفے پر بیٹھا تھا اور اپنے بابا سائے کو غور سے دیکھ رہا تھا...

"بابا سائے اتنا کیا سوچ رہے ہیں آپ؟ پانچ منٹ خاموشی کی نظر ہونے کے بعد وہ اپنے بابا سائے سے مخاطب ہوا.......

"ہہہہہہ ... بیٹا جو میں بتانے جا رہا ہوں اسکو اپنے ہی پورا کرنا ہے... 

کمرالدین صاحب نے بولنا شروع کیا تھا......

...........................💕💕💕

کمرالدین اور ریازالدین دو بھائی تھے.... کمرالدین بڑے تھے جبکہ ریازالدین چھوٹا اور اپنے گھر بھر کا لاڈلہ بھی تھا ......

وہ اس لاڈ پیار کی وجہ سے ہر برے کام میں مشغول ہو گیا تھا.. جب وہ حد سے زیادہ بگڑنے لگا تو اُسکے بابا نے اسکو پیرس بھیج دیا اپنے چھوٹے بھائی حمزہ کے پاس .....

کچھ سال وہ وہاں اپنی سٹڈی مکمل کرتا رہا بلکہ یہ کہنا ٹھیک رہے گا سٹڈی کی آڑ میں وہ وہاں دیں رات غائب رہتا اور کبھی کلب تو کبھی کوٹھوں پر اپنی راتیں گذارتا تھا کئی کئی دن وہ گھر سے غائب رہتا اور اس ہی وجہ سے حمزہ یعنی اُسکے چاچو کی اُسکے ساتھ لڑائیاں شروع ہونے لگی تھی...

حمزہ نے پریشان ہو کر اسکو واپس انڈیا احمد حویلی بھیجنے کا فیصلہ لیا تھا کیونکہ اُسکی وجہ سے اُنکی جو اتنے سالوں سے بنائی گئی عزت تھی وہ دن بادن ختم ہونے کا ڈر تھا....

سارا پیرس ریازالدین کو اُنکے حوالے سے جانتا تھا اور اس چیز کا وہ بھر پور طریقے سے فائدہ اٹھا رہا تھا......

جب ریازالدین کو پتہ چلا کہ اُسکے چاچو اسکو واپس انڈیا بھیج رہے ہیں تو بہت واویلہ ہوا جسکو خاطر میں نا لا کر ایک دن حمزہ نے اسکو بڑی مشکل سے واپس انڈیا بھیج دیا تھا.......

وہ انڈیا واپس تو آ گیا تھا لیکن آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا کام کر دیتا جس سے احمد حویلی کی شان و شوکت کو مٹّی میں ملا دیتا....

ایک دن ایسی ہی وہ آوارہ گردی کرتے پاس والے گاؤں میں چلا گیا وہاں اُسنے خان حویلی کی بیٹی شمع جرّار کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا تھا اپنے دوستوں کے ساتھ مل کرنے اُسنے اُسکے ساتھ چھیڑ خانی کرنی چاہی تھی پر وہ کر نہیں پایا تھا کیونکہ شمع کے ساتھ ہر وقت گارڈ رہتے تھے اور وقت رہتے اُن گارڈ نے اسکو پکڑ لیا تھا......

کئی روز جب وہ گھر نہیں آیا تو ہمیں لگا کہ ہوگا وہ اپنے کسی دوست کے پاس لیکن ایک دن ایک دن اس حویلی پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی......

ریازالدین جو ہم سبکو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا اُسکی لاش ہمارے اور پاس والے گاؤں سے نکلتی ہوئی ندی میں پڑی ملی تھی......

"بعد میں گاؤں والوں سے پتہ چلا تھا کہ ریازالدین کو خان حویلی کی بیٹی کو چھیڑتے ہوئے آخری بار دیکھا گیا تھا اور اُسکے بعد کسی نے نہیں دیکھا تھا اسکو......

پھر کچھ تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ یہ سب خان خاندان نے کیا ہے...... اُس دن میں نے اُسکے جنازہ اٹھنے سے پہلے قسم کھائی تھی کہ میں اپنے بھائی کی موت کا بدلہ ضرور لوں گا.... 

وہ روتے ہوئے بتہ رہے تھے جبکہ دم سادھے وہ اپنے باپ کو روتے سن رہا تھا.......

"بیٹا اس دن سے میں نے یہ دن کا بہت انتظار کیا ہے میرا انتظار بہت طویل ہے.....

"میں کل کی فلائٹ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پیرس جا رہا ہوں اب جو کرنا ہے اپنے کرنا ہے ....

یہ بول کر وہ لیٹ گئے تھے جبکہ احمد سن ہوتے دماغ کے ساتھ وہاں سے کھڑا ہو گیا تھا......

اُسکے دماغ میں صرف ایک بات تھی کہ اسکو اپنے چاچو کی موت کا بدلہ لینا ہے ..... اور وہ چل دیا تھا بدلہ لینے کے لیے اُسکے ایک ایک قدم تباہی کی طرف بڑھ رہے تھے....

جب وہ کمرے میں ایا تو دلہن بنی فردوس قیامت بنی اُسکے سامنے بیٹھی تھی... وہ اسکو دیکھتا رہا تھا... 
پھر ایک دم اُسکے دماغ پر جھماکا ہوا تھا....

"بدلہ بدلہ بدلہ !! 
..............💕💕💕💕

غازی میں اپنے نکاح سے پہلے آپکو کچھ بتانا چاہتی ہوں اپنا ماضی سب کچھ وہ روتے ہوئے بولی تھی جبکہ غازی نے اُسکا ہاتھ تھامیں اُسکی بولنے کی اجازت دی تھی وہ بولنا شروع ہوئی تھی....

احمد جب کمرے میں ایا تو اُسنے آتے ہی چلانا شروع کر دیا تھا ...

"کھڑی ہو میرے بیڈ اور سے".. تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی "....وہ گرایا تھا فردوس سہم کر کھڑی ہو گئی تھی.... اور اُسنے پھر اُس پر ظلم کرنا شروع کر دیا تھا اسکو اپنی اس کہ نشانہ بنا کر اُسنے شادی کی پہلی آدھی رات کو ہی اسکو طلاق دے کر اسکو تہ خانے میں بند کر دیا تھا آئے دن وہ اُس پر ظلم کرتا اور چلا جاتا روز وہ تڑپتی تھی روز مرتی تھی اور روز صبر کر کے بیٹھ جاتی تھی .....

چار سال چار سال میں نے اس اذیت میں کاٹیں ہیں غازی وہ پانی پر بیتی ساری داستان اُسکو سنا چکی تھی ....

جبکہ وہ ضبط کی انتہا پر بیٹھا اپنی جان پر ظلم کی داستان سن رہا تھا......

"فیری بھول جاؤ جو ہوا یاد رکھو آنے والے لمحہ کو جہاں میں اور تُم اور ایک ہماری چھوٹی سی دنیا ہوگی... 

وہ مسکراتے جلہوئے بولا تھا جبکہ اُسنے گردن جھکا لی تھی.... شام کو ہی اُن دونوں نے نکاح کر لیا تھا کچھ گواہوں کی موجودگی میں جس میں اکرم بھی تھا گواہ کے طور پر ..... اور ایک نئی زندگی شروع کر دی تھی.......
.....................

سعد صاحب نے سامنے کھڑے نو جوان کو دیکھتے ہی جھٹکا لگا تھا ... اور وہ زیر لب بڑ بڑاے تھے...

"غازی !! ہاں سامنے خدا شخص بلکل غازی احمد میں ملتا تھا..... 

وہی آنکھیں وہی ناک وہی رنگ روپ وس فرق تھا تو آنکھوں میں تھا غازی کی آنکھیں کالی تھی جبکہ اس نوجوان کی آنکھیں بلیو چمکیلی تھی......
برسوں پہلے کیے جانے والا ظلم سعد صاحب کی آنکھوں کے سامنے فلم بن کر یاد آیا تھا اسکے برعکس سمعان احمد کے سامنے بھی اپنا ماضی فلم بن کر چلا تھا۔۔
ساری یادیں ساری اذیتیں سب یاد آ گیا تھا اسکو... 
چلے چلتے ہے سمعان احمد کے ماضی کی طرف .....

..................💕💕💕💕
پانچ سال بعد »»»
وہ دونوں بہت اچھی زندگی گزار رہے تھے... اس بیچ غازی نے اپنا بز نس دہلی میں سیٹل کر لیا تھا اب وہ وہیں رہ رہا تھا فردوس اور اپنے چار سال کے بیٹے سامی کے ساتھ....

سامی ایک بہت پیارا خوبصورت گول گول چہرا پھولے ہوئے گبّارے جیسے گال گلابی خوبصورت لب اور بلیو آنکھوں کا مالک وہ بہت شرارتی سا بچہ تھا...

" ماما ماما.... ماما بابا تب آئے گے؟ وہ لان میں کھیل رہا تھا جبکہ فردوس لان میں پڑی چیئر پر بیٹھی کوئی کتاب کا مطالعہ کر رہی تھی جب سامی اُسکے پاس ایا تھا.....

فردوس نے اپنے بیٹے کو دیکھ کر کتاب کو ایک جانب ٹیبل پر رکھ کر اپنے بیٹے شامی کو گود میں اٹھایا اور اُسکے گالوں کو چومتی ہوئی بولی...

"ارے میرے شہزادے کیوں آپکو بابا کی یاد آ رہی ہے کیا؟ وہ پھولے ہوئے گالوں کو مزید اور پھلائے بولا ...

"ہاں نہ ماما؟ آپ تو پتہ ہے ماما جب میں ، آپ ، بابا اور ہماری گڑیاں "..وہ اپنی ماما کی ٹومی کی طرف دیکھتے ہوئے چہک کر بول رہا تھا...

"جب ہم تاتھ ہوتے نہ تو ہم تمپلیٹ ہو داتے ہے ".. وہ اپنی توتلی زبان میں بہت بڑی بات کہہ گیا تھا...

"ماشاللہ میرے شہزادے بھئی بہت اچھی باتیں کرتا ہے ".. اُسکا چہرا اپنے لبوں سے چومتی ہوئی وہ بولی تھی پیچھے سے غازی جو ابھی ابھی آفس سے آیا تھا اپنے بیوی اور سامی کو وہاں لان میں دیکھ کر وہیں آ گیا اور پیچھے سے چیئر کے گرد بازوں پھیلائے وہ اپنے بیٹے کا چہرے پر پیار کر رہا تھا جبکہ فردوس تو اُسکے اندر سے اٹھنے والی خوشبوں کو آنکھیں بند کیے محسوس کے رہی تھی...

"الے بابا آ دئے بابا آ دئے سامی نے نعرہ بلند کر دیا تھا جبکہ غازی اپنے بیٹے کی خوشی میں بہت خوش تھا........

"بیگم ذرا کمرے میں آؤ نا !! غازی ایک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا اور کمرے کی طرف لاؤنج سے ہوتے سیڑھیوں کی جانب چلا گیا تھا.....

فردوس اپنے بیٹے اور ملازمہ کو اُسکا خیال رکھنے کی تنقید کرتے ہوئی غازی کے پیچھے پیچھے چلی گئی تھی ....

....................💕💕💕💕

وہ جب کمرے میں آی تو غازی کھڑکی کے پاس کھڑا باہر کو دیکھ رہا تھا جبکہ ایک ہاتھ سے اپنا سر بھی سہلا رہا تھا....

فردوس پریشان سی اُسکی طرف بڑھی تھی "پرنس چارمنگ کیا، ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے آپکی ؟ وہ سامنے کھڑی سوال کر رہی تھی....

"جی فیری ٹیل پرنس چارمنگ نے مسکراتے ہوئے اپنی فیری کو ہاتھ پکڑ کر لبوں سے لگایا اور مسکرا کر جواب دیا گیا تھا.......

"پھر آپ اپنے سر کو کیوں ایسے سہلا رہے ہے؟ وہ منہ بصورتے ہوئے اُسکے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھ رہی تھی.....

"بھئی یہ اپنی فیری کو نزدیک بلانے کا طریقہ ہے وہ اُسکے اس سے پہلے اور نزدیک ہوتا دھڑام سے دروازہ کھولتا ہوا اندر آیا....

وہ دونوں جھٹکے سے دور ہوئے تھے ....

"یہ دیکھو آ گیا ہمارے درمیان کا سبسے بڑا دشمن " اُسکی بات پر سامی کا قہقہ بلند تھا.......

"یہ کیوں ہنس رہا ہے؟ غازی نے آئی برو اُچکائی تھی.. جبکہ فردوس نے کندھے اچکا دیے تھے اور اشارہ کر کے کہا تھا کہ پوچھو خود اپنے صاحبزادے سے پوچھیں..... 

"وہ بھائی ہو ! اُسکے ایسے بولنے پر فردوس نے حیرت سے دیکھا ...

"اوہ سوری بیٹے جی آپ ایسے کیوں ہنس رہے ہیں؟ غازی نے سامنے کھڑے اپنے چار سال کے بیٹے سے پوچھا تھا......

"بت ایتے ہی؟ وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا....

"بلکل اپنے باپ پر گیا ہے"... فردوس وہاں سے جا چکی تھی جبکہ پیچھے سے وہ دونوں ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہنس دیے تھے.....

"ہاہاہاہا ہاہاہاہا ".......

...........................💕💕💕💕

آج چھبیس جون تھی گرمی اور دن سے زیادہ تھی شامی اسکول سے جب سے ایا تھا بس ایک ہی رٹ لگائی ہوئی تھی کہ اسکو بھی اسپلیش واٹر پارک جانا ہے اور آج ہی جانا ہے.......

"بیٹا اگلے ہفتے چلے گے " فردوس نے سامی کو سمجھانا چاہا تھا جبکہ وہ ضد پر اڑا ہوا تھا کہ نہیں اسکو آج ہی جانا ہے.......

"نہیں مجھے آج ہی جانا ہے !! وہ ضد کرتے ہوئے بولا تھا ایک بات پھر اس بار وہ رونے بھی لگا تھا...

اسکو روتے دیکھ فردوس ایک دم گھبرا گئی تھی آج سے پہلے کبھی شامی نے اتنی ضد نہیں کی تھی.....

"اچھا اچھا میرے شہزادے روئے تو نا میں آپکے بابا کو کال کر کے بلاتی ہوں پھر چلتے ہیں نا " وہ اسکو بولتی غازی کو کال کرنے لگی تھوڑی دیر بعد کا آنے کہ بول کر غازی نے کال کاٹ دی تھی اور وہ سامی کو تیار کرنے کی غرض سے اسکو روم میں لے آئی تھی...... 

تھوڑی دیر بعد غازی کے آنے کے بعد وہ تینوں اسپلیش واٹر پارک کے لیے روانہ ہو گئے تھے اس بات سے بے خبر کہ اب دو وجود کبھی واپس نہیں آنے والے .......

.....................💕💕💕💕💕
جب وہ تینوں اسپلیش واٹر پارک پہنچے تو عصر کا وقت گزر چکا تھا.... سامی بہت خوش تھا اور اُسکی خوشی میں وہ دونوں ....

فردوس اور غازی دونوں ایک پتھر پر بیٹھے اپنے بیٹے کو انجوئے کرتے دیکھ رہے تھے....

"پرنس چارمنگ پتہ نہیں آج جو شامی کا طرز عمل تھا بہت عجیب سا تھا آج سے پہلے کبھی اس نے اتنی ضد نہیں کی تھی....

فردوس پریشان سے غازی کو بتہ رہی تھی وہ شامی کی آج کی حرکت کو لیکر بہت پریشان دکھ رہی تھی......

"فیری جان !! غازی نے اُسکے گرد اپنا گھیرا کستے ہوئے کہا ....

"جان آپ پریشان نہ ہو بچہ ہے اور بچّے اکثر اپنی بات منوانے کے لیے ایسی حرکتیں کرتے ہیں انکو لگتا ہے کہ ماں باپ اُنکی ایسے ضد کرنے سے اُنکی خواہشوں کو پوری کر دیتے ہے "... وہ بہت پیار سے اپنی بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے شائستہ لحظے میں سمجھا رہا تھا......

"اور فیری جان تُم ان باتوں پر دھیان دینا چھوڑ دو... جب میں ہوں تمہارے ساتھ تو اور باتوں کا تو کوئی جواز ہی نہیں بنتا وہ اُسکے اور مجید قریب ہوتے ہوئے بولا تھا.... جبکہ دور سے کسی نے اُن دونوں کی فوٹو اپنے کیمرے میں قید کی تھی اور یہ منظر سامی کی نظروں سے اوجھل نہیں تھا.....

How beautiful is this couple?
یہ کپل کتنا خوبصورت ہے؟

ایک لڑکی نے اپنے کیمرے میں دیکھتے ہوئے اپنی فرینڈ سے کہا تھا.....

"ہاں یار بہت خوبصورت ہے.....
وہ لڑکی بھی بولی تھی..... تبھی اُن دونوں کے پاس ایک بچہ بھگتا ہوا آیا تھا.....

"آپی آپی آپتو نہیں پتہ ؟ وہ گول مٹول سا بچہ اُن دونوں کو دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا.... اُن لڑکیوں نہ بچے کی طرف دیکھتے ہوئے پھر ایک دوسرے کو دیکھا اور بچے سے ایک ساتھ دونوں نے سوال کیا تھا....

"کیا بےبی ؟ 
"پہلی بات پیاری گرلز میں بے بی نہیں ہوں "وہ منہ پھلائے اُنکی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کرتا بولا... اُسکی بات پر وہ دونوں لڑکیاں مسکرائی تھی....

"تو کیا ہے آپ ؟ اُن دونوں نے پوچھا...

"الحمدللہ میں تار سال تا ہینڈسم بوئے ہوں".. وہ ایک ادا سے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بتہ رہا تھا جبکہ وہ دونوں اسکو دیکھ کر ہنس دی تھی.....

"ہاں تو میں آپتو کتھ بتہ رہا تھا... آپی تب کتی کی تعریف ترتے ہے نہ تو ماشاللہ پہلے لدا تے ہے.....

اُسکی باتوں کو سن کر ان دونوں لڑکیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا اورپھر مسکراتے ہوئے اُسکے گالوں کو کھینچتے ہوئے بولی.....

"واؤ شہزادے یہ سب آپکو کس نے سکھایا ہے؟ 

"وہ اپنے گالوں کو مسلتے ہوئے بڑ بڑایا تھا...
ایک تو میلے گالوں تے سب تو پلوبلم ہے... اور پھر اُنکے سوال کا جواب دیتے ہوئے وہاں سے بھاگ گیا تھا..

"میرے ماما بابا نے "... اور وہ لڑکیاں اُسکے یوں بھاگنے پر بے تحاشہ ہنس دی تھی.......

"یار کیا بچہ ہے کتنا کیوٹ سا ؟ ایک لڑکی نے کہا تھا.. جبکہ دوسری لڑکی ہنستے ہوئے بولی...

"ہہہہہہ !! نہیں نہیں ماشاللہ لگاؤ ورنہ ہینڈسم بوئے نے سوں لیا تو ....

"ہاہاہا ہاہاہا کمال کہ بچہ ہے.....

وہ دونوں آگے بڑھ گئی تھی.......

"بیگم دیکھو وہ ہمارا صاحبزادہ وہاں کیا کر رہا ہے؟ غازی نے سامی کو دو لڑکیوں کے پاس کھڑے ہوتے دیکھا تو فردوس کو بتایا .....

"دے رہا ہوگا انکو بھی کوئی مسئلہ "... فردوس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا اور پھر دونوں ہنس دیے تھے...

کون جانتا تھا اُنکے یہ ہنسی کب تک قائم رہے گی؟ 

.....................💕💕💕

"سر سر آپ تو وہی ہے نہ جنہوں نے پچھلے ہفتے ہوٹل میں اپنے دوستوں کے درمیان ایک سونگ سنایا تھا...؟ 

ایک لڑکے نے غازی کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا....

"جی بلکل ! غازی نے مسکراتے ہوئے کہا.....

"سر سر پلز ایک آٹو گراف ملے گا؟ وہ لڑکا ریکویسٹ کرتے ہوئے بولا تھا... جبکہ غازی مسکرا دیا....

"بلکل یار !! وہ اُسکی طرف آٹو گراف دیتے ہوئے بولا .....

"سر ایک ریکویسٹ اور ایک سونگ اور سنا دیں....

"کسی اپنے بہت خاص شخص کے لیے !! 

"پر یار !! وُہ کُچّھ بولتا کہ وہ لڑکا بولا تھا... سر فکر نوٹ میرے پاس گٹار بھی ہے وہ اپنے کندھے سے گٹار کو باہر نکلتے ہوئے بولا تھا.....

"واہ بھئی بہت ہی چلاک ہو".. غازی ہنستے ہوئے بولا رہا تھا ...

"بس ایسا ہی سمجھ لیں".... وہ بھی اُسکے ہی انداز میں بولا اور پھر دونوں ہنس دیے تھے.......

............................💕💕💕

غازی ایک بڑے سے پٹھر پر بیٹھا ہاتھ میں گٹار پکڑے ہوئے بیٹھا تھا جبکہ فردوس سامنکو گود میں لیے بیٹھی تھی جبکہ عانکے چاروں اطراف سے لوگوں نے گھیرا ہوا تھا........

"تو دوستوں یہ ہے ہمارے غازی احمد جنکی آواز بہت ہی پیاری ہے اور آج یہ اپنی کسی خاص شخص کے نام سے ایک سونگ آپکو اپنی بہت ہی پیاری سی آواز میں سنانے والے ہے .....

"دل تھام کر بیٹھ جائے 
محبّت کا نگمہ بکھیرنے جا رہے ہیں غازی احمد.....

گٹار کی آواز نے خاموشی کی تھی .....

................
میوزک................
..................

میوزک................

تُجھکو میں رکھ لوں وہاں
جہاں پہ کہیں ہیں میرا یقین 
میں جو تیرا نہ ہوا 
کسی کا نہیں،
کسی کا نہیں
وہ ہاتھ میں گٹار تھامیں بس اپنی فیری کو ہی دیکھ رہا تھا جسکے ساتھ وہ اپنی ساری عمر بتانا چاہتا تھا........
آنکھوں میں محبّت کا تھاٹے مارتا ہوا سمندر لیے وہ اپنی جینے کی وجہ کو دیکھ رہا تھا.......
اور سب اسکو ....
لے جائیں جانے کہاں
ہوائیں ہوائیں 
لے جائیں تُجھے کہاں 
ہوائیں ہوائیں 
بیگانی ہے یہ باغی 
ہوائیں ہوائیں 
لے جائیں مجھے کہاں 
ہوائیں ہوائیں
لے جائیں جانے کہاں 
نہ مجھکو خبر نہ تُجھکو پتہ.........
اُو و و و و............
اُو و و و و............
میوزک................... 
میوزک.........................
بناتی ہے جو تُو.......
وہ یادیں جانے سنگ 
میرے کب تک چلیں
انہی میں تو میری........ 
صبح بھی ڈھلے
شام ڈھلے 
موسم ڈھلے........
خیالوں کا شہر....
تُو جانیں تیرے ہونے
سے ہی آباد ہیں
ہوائیں حق میں ......
وہی ہے آتے جاتے
جو تیرا ہی نام لیں..
دیتی ہے جو صدائیں 
ہوائیں ہوائیں..
نا جانیں کیا بتائیں
ہوائیں ہوائیں..
لے جائیں تُجھے کہاں
ہوائیں ہوائیں...
لے جائیں مجھے کہاں
ہوائیں ہوائیں...
لے جائیں جانے کہاں 
نہ مجھکو خبر نہ تُجھکو پتہ.........
اُو و و و و............
اُو و و و و............
میوزک................... 
میوزک.........................

وہ ایک ٹک بسس اسکو ہی دیکھ رہا تھا دل حد سے زیادہ دھڑک رہا تھا جبکہ آنکھوں کی پیاس بجھ ہی نہیں رہی تھی......
وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے.....
شدّت جذبات اُنکے ہر رویہ سے عیاں ہو رہے تھے وہاں کھڑا ہے شخص اُن دونوں کی محبّت پر رشک کر رہے تھے.....

ایک بار پھر آواز گونجی تھی...

چہرا.... کیوں ملتا تیرا...
خوابوں سے میرے...
یہ کیا راج ہیں
کل بھی میری نا تھی تو ..... 
نا ہوگی تو کل...
میری آج ہیں....
تیری ہے میری ساری 
وفائیں وفائیں
مانگی ہے تیرے لیے 
دعائیں دعائیں 
لے جائیں تُجھے کہاں
ہوائیں ہوائیں...
لے جائیں مجھے کہاں
ہوائیں ہوائیں...
لے جائیں جانے کہاں
لے جائیں تُجھے کہاں 
لے جائیں جانے کہاں
لے جائیں مجھے کہاں 
اُو و و و و............
اُو و و و و........
میوزک................... 
میوزک.........................
وہ خاموش ہو گیا تھا ہے اطراف سے تالیوں کی آوازیں گونجنے لگی تھی ....

"واہ بیٹا تمہاری محبّت صدا..... !! ابھی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک دم گولیوں کی آواز نے ہواؤں میں ارتعاش پیدا کیا تھا......

وہاں سب اِدھر اُدھر بھاگنے لگے تھے ڈر کی وجہ سے 
اور وہ تینوں وہاں کھڑے ماحول میں ایک دم افرا تفری کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے تھے....

تبھی کچھ لوگوں نے ان تینوں کو چاروں اطراف سے گھیر کر اُن پر بندوقیں تان لی تھی......

فردوس ایسے صورتِ حال کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گئی تھی اور سامی کی آنکھوں پر زور سے ہاتھ رخ کر اسکو دیکھنے سے منع کیا تھا......

کیونکہ وہ رونے لگا تھا اس صورتِ حال کو دیکھ کر ....

ایک گاڑی آکر رکی اسمیں سے ایک پینتیس سال کا شخص باہر نکلا تھا....

بڑی بڑی مونچھیں کالی آنکھیں کندھوں پر شال ڈالے وہ کوئی پٹھان لگ رہا تھا....

غازی نے اس شخص کو غور سے دیکھا لیکن پہچان نہیں پایا تھا......

"کون ہو تُم ؟ اور ہم سے کیا چاہتے ہو؟ غازی وہی پرانے والا غازی بن گیا تھا وہ دھاڑ کر بولا....

آنکھوں میں نا خوف تھا نا وہ موت سے ڈرتا تھا....

"ہاہاہاہا ہاہاہاہا عاشق بھی بولتے ہیں !! وہ شخص ہنستے ہوئے مذاق بنا رہا تھا.....

"اور چند گھنٹوں کی ایکس وائف کیا حال ہے؟ سب سے ہے نا ؟

وہ تھوڑا نزدیک ایا اور فردوس کو چھونے والا ہی تھا جب غازی نے اُس شخص کا ہاتھ پیچھے کو جھٹکا تھا اور گرّہ کر بولا......

"فیری کو ہاتھ لگانے کی ہمت مت کرنا میں جان گیا ہوں تُو کون ہے بہتر ہو گا ہاتھ پیچھے رکھ "....

"ورنہ تو اچھے جانتا ہے کہ میں کیا کر سکتا ہوں..
آنکھیں غصّے سے سرخ ہو گئی تھی جبکہ گردن کی نسیں خوب دکھ رہی تھی........

نا نا میں اسکو کیوں چهوں گا بھلا میں تو".... اُسنے اپنے آدمی کی طرف اشارہ کیا اور اُسکے آدمی نے ہاتھ میں تھامے پیٹرول کی بوتل کو کھول کر فردوس کے اوپر انڈیل دی تھی ......

غازی کو اُسکے آدمیوں نے مضبوطی سے پکڑ لیا تھا جبکہ سامی روتے ہوئے اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا وہ اپنی ماں کے پاس جانا چاہتا تھا لیکن اس موٹے کالے ادمی نے اسکو پکڑا ہوا تھا......
"امی ی ی .....!!
وہ چیخ رہا تھا رو رہا تھا لیکن کسی کو اس معصوم پر ترس نہیں آیا تھا....

وہاں کھڑا ہے نفوس تماشہ دیکھ رہا تھا وہ دو لڑکیاں جنہوں نے اُن دونوں کی فوٹو بنائی تھی وہ اُس بچے اور غازی اور فردوس کو دیکھ کر بہت رو رہی تھی اُسکا کوئی رشتہ نہیں تھا لیکن انسانیت کے ناطے وہ بھی بہت زیادہ اللہ سے دعا مانگنے میں لگی ہوئی تھی......

"احمد احمد تُم ایسا کچھ نہیں کرو گے "... غازی اُسکا ارادہ جانتے ہوئے پوری قوّت سے چلّایا .....

"پرنس شامی"... فردوس روتے ہوئے چلائی

اور بسس اُس بے رحم شخص نے ماچس کی تیلی جلا کر اُسکے اور پھینک دی......

"فردوس س س !!!

"ماما ا ا ا !!! 

"اللہ ہ ہ ہ.. !!

نہیں ہے معبود اللّٰہ کے سوا محمد صلی اللھ علیھ وآلہ وسلم اللہ کے سچے نبی ہے.....
بی شک محبّت دلوں میں قائم کرنے والا بادشاہ مکافات عمل تیری ہی بنائی ہوئی شے ہے.....

"اے آدم ذات میری بد دعا ہے تیرے حق میں کہ وہ دن دور نہیں جب تیری اولاد تُجھے مارے گی وہ دن دور نہیں جب تو پانی مانگے گا اور تُجھے نہیں ملے گا وہ دن دور نہیں جب تو موت مانگے گا لیکن آسانی سے نصیب نہیں ہوگی اور وہ دن دور نہیں جب تُجھے نا تو کفن میسّر ہوگا نا مٹّی تُو ہوا بن کر تا قیامت بھٹکے گا...... میری بد دعا ہے "...... آگ میں جلتا وجود روتے ہوئے کرّاہتے ہوئے چلّا چلّا کر بد دعائیں دے رہا تھا.........

"فردوس س س !!

اور ایک دم خاموشی چھا گئی تھی وہ شیطان ہنس رہا تھا زوردار قہقہ لگا رہا تھا.....

ایک بار پھر آواز اُبھری تھی......

"آئی سسکیاں لو یوں غازی 
"آئی لو میرے شہزادے .....

اور سسکیاں دم توڑ گئی تھی ہاں آج اندھیرے کی ملکہ نئے سفر کے لیے نکل چکی تھی کبھی نا واپس آنے کے لئے.........

غازی کو وہ شیطان لے گیا تھا جبکہ سامی کو وہیں چھوڑ گیا تھا.....

سامی اپنی ماں کی راکھ کے پاس بیٹھا رو رہا تھا وہاں سے سب جا چکے تھے جب وہ دونوں لڑکیاں اُس بچے کے پاس آئی اور اسکو کندھوں سے تھامے خود میں بھینچ کر خوب روئی تھی.....

"نہیں ہینڈسم بوئے نہیں آپ بہت ہمت والے ہیں...

اور وہ دونوں اسکو اپنے ساتھ لے گئی تھی.....

..................💕💕💕💕

سامی کا بچپن تین بچوں کے درمیان کٹا تھا 
موحی یعنی محسین خان ، شانی یعنی شایان خان اور روحی یعنی سارہ نعیم 

سامی کو جب اسماء اور حلیمہ اپنے ساتھ لائی تو وہ تھوڑا تھوڑا کھچا کھچا رہتا تھا لیکن موحی اور شانی کے ساتھ مل کرنے وہ دھیرے دھیرے ٹھیک ہو گیا تھا سارہ جب چھ مہینے کی تھی اور وہ تینوں اُس گڑیاں کے ساتھ خوب کھیلتے تھے.....
.......................💕💕💕

اس بچے کو کوئی نہیں جانتا تھا لیکن اس کے ساتھ جو ہوا اُسکے بعد سب اُسکا اچھے سے خیال رکھتے تھے......
اُسکا اچھے اسکول میں ایڈمیشن دلایا جب وہ تھوڑا بڑا ہوا قریب بارہ سال کا تو سامی نے وہاں کے بڑے یعنی اس گھر کے بزرگ امتیاز صاحب سے اجازت لے کر ہوسٹل میں رہنے لگا وہیں رہ کر اپنی پڑھائی کو سر انجام دینے لگا.....

وقت بیتتا گیا اور وقت کے ساتھ اُسکی نفرت اس شخص کے لیے بڑھتی چلی گئی تھی.......

وہ ائے روز نفرت کی آگ میں جلتا تھا... کوئی نا کوئی طریقہ سوچتا رہتا تھا اُسنے اُس شخص کے بارے میں ساری معلومات حاصل کر لی تھی....

اور آج اکیس سال بعد اس شخص کے رو برو کھڑا اسکو گھور رہا تھا...

اب سمجھ ایا تھا اسکو ... فوٹو دیکھنے کے بعد وہ یقین کر گیا تھا لیکن اس شخص کی شکل دیکھ کر اُسکا یقین پل میں ختم بھی ہو گیا تھا.....

شایان جو کچھ بول رہا تھا ابھی اسکو سمجھ نہیں آ رہا تھا.......

اور جو اسکو سمجھ آیا وہ اب اسکو سر انجام بھی دینا تھا..........

کیا سامی بچا پائے گا اس بھیڑیا سے جیری کو؟ 

آپ سوچ رہے ہوگے سامی کون ہے تو بھئی ہمارا سامی یعنی سمعان غازی احمد ہے.......

...........................💔💔💔
تحمّل عشق ایپی 9 شائع ہو گئی ہے اب آپ پڑھ سکتے ہیں مجھے آپکی ووٹ اور ریويوز کا بے صبری سے انتظار رہے گا....
ووٹ کمینٹ شیئر ضرور کریں....










   0
0 Comments